یمین لغو
یمین لغو (بلاقصد قسم)
یمین یعنی قسم کی تین قسمیں ہیں ان میں سے ایک قسم یمین لغو یا( یمین مظنون،یمین المعصیۃ) ہے اس کی تفسیر میں اختلاف ہے۔
امام شافعی کا قول
[ترمیم]امام شافعی کے نزدیک یمین لغو کے معنی یہ ہیں کہ یہ جو قسم انسان کی زبان سے بلاقصد اور ارادہ نکل جائے جیسے عرب میں لاواللہ اور بلی واللہ تکیہ کلام تھا ایسی قسم میں نہ گناہ ہے نہ کفارہ۔ امام شافعی فرماتے ہیں جس میں ارادہ ہو اگر وہ نفس الامر کے خلاف ہو تو اس میں کفارہ واجب ہوگا اگرچہ قسم کھانے والے کے گمان میں وہ واقع اور نفس الامر کے مطابق ہو۔
امام ابو حنیفہ کا قول
[ترمیم]امام ابوحنیفہ کے نزدیک یمین لغووہ ہے کہ کسی گذشتہ چیز کو سچ سمجھ کر قسم کھائے اور واقع میں اس کے خلاف ہو لیکن اس نے اپنے گمان میں اس کو سچ سمجھ کر قسم کھالی ہو ایسی قسم میں نہ کفارہ ہے اور نہ کوئی گناہ،
عبداللہ بن رواحہ اور ان کے داماد بشیر بن نعمان میں کسی بات پر کچھ تکرار ہواعبداللہ بن رواحہ نے قسم کھائی کہ میں نہ تم سے ملوں گا اور نہ تم سے کلام کروں گا اور نہ تمھاری کسی بھلائی اور برائی میں دخل دوں گا اس کے بعد عبد اللہ سے جب کوئی اس بارے میں کوئی بات کرتا اور کچھ کہنا چاہتا تو یہ کہہ دیتے کہ میں نے اللہ کی قسم کھالی ہے اس لیے میں کچھ نہیں کر سکتا اس پر یہ آیت نازل ہوئی "اور اللہ کے نام کو اپنی قسموں کے لیے آڑ نہ بناؤ یعنی رشتہ داروں میں سلوک اور احسان کرنے کے لیے اور تقوی اور پرہیزگاری کا کام کرنے کے لیے اور لوگوں میں صلح کرانے کے لیے قسم کو بہانہ نہ بناؤ" اور یہ نہ کہو کہ میں نے قسم کھالی ہے اس لیے میں یہ کام نہیں کر سکتا۔[1]
یمین لغو میں اختلاف
[ترمیم]یمین لغو کی تفسیر میں ائمہ کا اختلاف ہے۔ ابن عباس اور حسن بصری اور مجاہد اور نخعی اور زہری اور سلیمان بن یسار اور قتاوہ اور سدی اور مکحول اور امام ابو حنیفہ کہتے ہیں یمین لغو یہ ہے کہ کسی گذشتہ بات پر یہ جان کر کہ یہ یوں ہے قسم کھاوے اور اصل وہ یوں نہ ہوجیسا کہ کوئی کہے واللہ پرسوں بارش ہوئی تھی اور اس کو گمان غالب ہے کہ ہوئی تھی اور دراصل یہ غلطی پر تھا۔ یا کہے کہ واللہ یہ فلاں چیز ہے اور دراصل اس کا خیال غلط ہے۔ چونکہ اس نے عمداً جھوٹ نہیں بولا۔ یہ معاف ہے جیسا کہ اس آیت میں فرمایا ہے لا یؤ اخذکم اللہ باللغوفی ایمانکم اور عائشہ صدیقہ اور شبعی اور عکرمہ اور امام شافعی کہتے ہیں یہ یمین لغو نہیں کیونکہ اس میں قصد پایا گیا۔ اس پر کفارہ لازم ہوگا بلکہ لغو یہ ہے کہ بلا قصد یوں ہی بات بات پر واللہ باللہ کا استعمال کیا جاوے چونکہ اس میں قصد نہیں یہ لغویت معاف ہے ٗ خدا دل کو دیکھتا ہے۔[2]
تکیہ کلام کے طور پر جیسے لوگوں میں رواج ہے کہ فلاں کے سر کی قسم یا فلاں کی جان کی قسم یہ بالکل منع ہے۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)عمرفاروق کے پاس پہنچے اس وقت وہ گھوڑے پر سوار تھے اور اپنے باپ کی قسم کھا رہے تھے، آپ نے فرمایا خبردار اللہ تعالیٰ تمھیں اس بات سے منع فرماتا ہے کہ اپنے باپوں کی قسم کھاؤ جس شخص کو قسم کھانا ہے تو وہ اللہ کی قسم کھائے یا خاموش رہے۔[3]
جس قسم پر مواخذہ نہیں ہوگا اسے ’’ یمین لغو‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ لیکن یمین لغوکا لفظ ہمیں ایک اور اہم اور نازک بات کی طرف بھی متوجہ کرتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ یہ صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ اس قسم پر مواخذہ نہیں فرمائیں گے‘ لیکن اللہ تعالیٰ کا اس قسم کو لغو قرار دینا یقینا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پروردگار اس فعل اور رویے کو پسند نہیں فرماتے۔ کیونکہ کوئی سا لغو کام بھی اللہ کو پسند نہیں۔ اور ایک مومن کی جو صفات گنوائی گئی ہیں‘ اس میں بھی بطور خاص اس بات کا ذکر فرمایا ہے والذین ہم عن اللغو معرضون ’’ کہ فلاح پانے والے مومن وہ ہیں جو لغو سے اعراض کرنے والے ہیں‘‘ ایک مومن کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ اس کی زبان سے لغویات کا صدور ہو۔ چاہے اس کا تعلق زبان کی بے احتیاطی سے ہو اور چاہے اس کا تعلق معاملات میں لاپروائی سے ہو۔ ہر لا یعنی بات کو لغو کہا جاتا ہے۔ ایسے لا یعنی کاموں کو کرنا ایک مومن کو اس لیے زیب نہیں دیتا کیونکہ اس سے اسلام کا حسن دھندلا کر رہ جاتا ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے من حسن اسلام المرء ترکہ ما لا یعنیہ ’’ ایک آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ ہر لا یعنی بات کو چھوڑ دے‘‘ لغوقَسم بھی چونکہ ایسے ہی لا یعنی کاموں میں سے ہے‘ اس لیے ایک مومن کو اس کے ارتکاب سے ہمیشہ بچنا چاہیے۔[4]
یمین لغویہ ہے کہ انسان ماضی یا حال کی کسی بات پر اپنی دانست میں سچی قسم کھائے اور درحقیقت وہ جھوٹ ہو‘ اس کو لغو اس لیے کہتے ہیں کہ اس پر کوئی ثمرہ مرتب نہیں ہوتا‘ نہ گناہ نہ کفارہ اس میں قسم کھانے والے کی بخشش کی امید کی گئی ہے۔ امام شافعی یہ کہتے ہیں کہ یمین لغو اس قسم کو کہتے ہیں جو انسان کی زبان پربلاقصد جاری ہو جیسے ’’ لا واللہ بلی واللہ‘‘ نہیں خدا کی قسم‘ ہاں خدا کی قسم۔[5]
ابن عابدین کا قول
[ترمیم]علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں لوگوں کی زبان پر جو نہیں خدا کی قسم اور ہاں خدا کی قسم ! جاری ہوتا ہے یہ یمین لغو ہے‘ ہمارے نزدیک یہ قسم ماضی اور حال پر موقوف ہے اور ہمارے نزدیک یہ لغو ہے اور ہمارے اور امام شافعی کے درمیان اختلاف کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص بلاقصد مستقبل کے متعلق قسم کھائے تو یہ امام شافعی کے نزدیک یمین لغو ہے اور اس میں کفارہ نہیں ہے اور ہمارے نزدیک یہ یمین منعقدہ ہے اور اس میں کفارہ ہے۔ یمین لغو صرف وہ ہے جو ماضی یا حال کے متعلق بلاقصد کھائی جائے [6]
علامہ ماوردی کا قول
[ترمیم]علامہ ماوردی شافعی لکھتے ہیں
یمین لغو وہ ہے جو زبان پر بلاقصد جاری ہوجاتی ہے جیسے نہیں خدا کی قسم ! اور ہاں خدا کی قسم ! یہ سیدتنا عائشہ اور ابن عباس کا قول ہے‘ اور امام شافعی کا یہی مذہب ہے۔[7]
ابن جوزی کا قول
[ترمیم]علامہ ابن جوزی حنبلی لکھتے ہیں
یمین لغو میں
- ایک قول یہ ہے کہ ایک شخص اپنے گمان کے مطابق کسی بات پر حلف اٹھائے پھر اس پر منکشف ہو کہ واقعہ اس کے خلاف ہے‘ابوہریرہ‘ ابن عباس عطاء شعبی‘ ابن جبیر‘ مجاہد‘ قتادہ‘ امام مالک اور مقاتل کا یہی قول ہے۔
- دوسرا قول یہ ہے کہ کوئی شخص قسم کھانے کے قصد کے بغیر کہے : نہیں خدا کی قسم ! ہاں خدا کی قسم ! یہ عائشہ صدیقہ، طاؤس‘ عروہ‘ نخعی اور امام شافعی کا قول ہے‘ اس قول پر اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے ‘’’ لیکن اللہ ان قسموں پر تم سے مواخذہ کرے گا جو تم نے پختہ ارادوں سے کھائی ہیں‘‘۔ یہ دونوں قول امام احمد سے منقول ہیں‘
- تیسرا قول یہ ہے کہ آدمی غصہ میں جو قسم کھائے وہ یمین لغو ہے‘
- چوتھا قول یہ ہے کہ آدمی کسی گناہ پر قسم کھائے‘ پھر قسم توڑ کر کفارہ دے اس پر کوئی گناہ نہیں ہے‘ وہ یمین لغو ہے‘ یہ سعید بن جبیر کا قول ہے‘ پانچواں قول یہ ہے کہ آدمی کسی چیز پر قسم کھائے پھر اس کو بھول جائے‘ یہ نخعی کا قول ہے۔ قاضی ابوبکر ابن العربی مالکی لکھتے ہیں
- امام مالک کے نزدیک یمین لغو یہ ہے کہ آدمی اپنے گماں کے مطابق کسی چیز پر قسم کھائے اور واقعہ اس کے خلاف ہو۔[8]
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ تفسیر معارف القرآن ،محمدادریس کاندہلوی،البقرہ224
- ↑ تفسیر حقانی ابو محمد عبد الحق حقانی،البقرہ 224
- ↑ صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1584
- ↑ تفسیر روح القران۔ ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی ،البقرہ،224
- ↑ درمختار علی ھامش رد المختار ج 3 ص 48۔ 47 مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی‘ بیروت
- ↑ رد المختار ج 3 ص‘ 48 مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی‘ بیروت
- ↑ النکت والعیون ج 1 ص 286‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ‘ بیروت
- ↑ تفسیر تبیان القرآن، غلام رسول سعیدی،البقرہ،224